تحریر: عاصم علی
حوزہ نیوز ایجنسی|
مقدمہ
اسلامی تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اقوام کی حقیقی ترقی کا انحصار صرف مادی وسائل، عسکری قوت یا سیاسی حکمتِ عملی پر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی بنیاد اخلاقی اقدار، عدل و انصاف اور صالح قیادت پر ہوتی ہے۔ جب بھی تاریخ نے ایسے رہنما دیکھے جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر حق، سچ اور انسانیت کی خدمت کے لیے اٹھے، وہ رہنما نہ صرف اپنے دور، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن گئے۔ اسلامی تاریخ میں اگر کسی ایک شخصیت کو اس معیار پر پورا اترتا ہوا دیکھا جائے تو وہ بلا شبہ امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
حضرت علیؑ کی شخصیت محض ایک عظیم صحابی یا خلیفہ کی نہیں بلکہ وہ امامِ منصوص من اللہ، رسولِ اکرم کے برحق جانشین اور ولایتِ الٰہی کے مظہر ہیں۔ آپؑ کی زندگی کا ہر مرحلہ چاہے وہ ولادت ہو، تربیت ہو، جہاد ہو، علم ہو یا خلاف. ایک الٰہی منصوبے کے تحت انسانیت کی ہدایت کے لیے مرتب ہوا۔ خصوصاً آپؑ کی خلافت کا دور اسلامی نظامِ حکومت کا وہ مثالی نمونہ ہے جس میں عدل، مساوات، دیانت اور انسان دوستی کو عملی شکل دی گئی۔
حضرت علیؑ کی ولادتِ باسعادت سے لے کر آپؑ کے نظامِ عدلِ اسلامی تک علوی قیادت کس طرح آج بھی امتِ مسلمہ اور پوری انسانیت کے لیے ایک مکمل دستورِ حیات فراہم کرتی ہے۔
حضرت علیؑ کی ولادتِ باسعادت؛ انتخابِ الٰہی کی علامت
حضرت علی علیہ السلام کی ولادت 13 رجب المرجب، 30 عام الفیل کو خانۂ کعبہ کے اندر ہوئی۔ یہ شرف صرف حضرت علیؑ کو حاصل ہے کہ آپؑ اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے، جو اس بات کی علامت ہے کہ آپؑ کی ذات ابتدا ہی سے توحید، عبادت اور ولایت سے وابستہ تھی۔
یہ ولادت محض ایک معجزاتی واقعہ نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہے کہ جس ہستی نے اللہ کے گھر میں آنکھ کھولی، وہی ہستی بعد میں اللہ کے دین کے حقیقی محافظ اور عدلِ الٰہی کے علمبردار کے طور پر سامنے آئے گی۔
خاندانِ نبوت میں تربیت اور روحانی نشوونما
حضرت علیؑ کی پرورش براہِ راست رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ کی نگرانی میں ہوئی۔ مکہ میں قحط کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت علیؑ کو اپنے گھر میں لے آئے، جہاں آپؑ نے بچپن ہی سے وحی کے ماحول میں آنکھ کھولی۔
حضرت علیؑ نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا اور آپؑ کی فطرت ابتدا ہی سے توحید پر قائم تھی۔
نہج البلاغہ میں حضرت علیؑ خود اپنی تربیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ اس طرح رہے جیسے بچہ ماں کے ساتھ رہتا ہے۔
اس قربت نے حضرت علیؑ کو علم، حکمت، صبر اور اخلاق کی اس بلندی تک پہنچایا جو کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔
اسلام کی ابتدائی جدوجہد میں کردار
حضرت علیؑ سب سے پہلے ایمان لانے والے مرد ہیں۔ آپؑ کا ایمان شعوری، کامل اور بغیر کسی شک کے تھا۔ اعلانِ نبوت کے بعد جب اسلام کمزور تھا، حضرت علیؑ ہر محاذ پر رسولِ خدا کے ساتھ کھڑے رہے۔
لیلۃ المبیت کا واقعہ حضرت علیؑ کی قربانی اور وفاداری کی اعلیٰ مثال ہے، جب آپؑ نے رسولِ خدا کے بستر پر سو کر اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ یہ عمل محض جسمانی بہادری نہیں بلکہ ایمان کی اس پختگی کا اظہار تھا جو اللہ پر کامل توکل سے جنم لیتی ہے۔
علم و حکمت کا سرچشمہ
حضرت علیؑ علمِ نبوی کے وارث اور قرآنِ ناطق ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا فرمان کہ “میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔”
نہج البلاغہ حضرت علیؑ کے فکری، فلسفیانہ اور اخلاقی افکار کا ایسا مجموعہ ہے جو آج بھی جدید ذہن کو حیران کر دیتا ہے۔
حضرت علیؑ کا علم صرف فقہی یا ظاہری احکام تک محدود نہیں تھا بلکہ کائنات، انسان، اخلاق، سیاست اور عدل کے عمیق اصولوں پر محیط تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپؑ کے اقوال ہر دور میں تازہ محسوس ہوتے ہیں۔
غدیرِ خم اور حقِ خلافت
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے غدیرِ خم کے مقام پر حضرت علیؑ کو اپنا جانشین اور امت کا ولی مقرر فرمایا۔
"من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ”یہ اعلان محض محبت کا اظہار نہیں، بلکہ ولایت و قیادت کا واضح اعلان تھا۔
اس کے باوجود رسولِ خدا کے وصال کے بعد حضرت علیؑ کو خلافت سے دور رکھا گیا۔ آپؑ نے اسلام کی بقا اور امت کی وحدت کی خاطر صبر اختیار کیا، حالانکہ آپؑ حق پر تھے۔
خلافتِ امیرالمومنینؑ کا آغاز
25 ہجری میں جب حالات نے مجبور کیا تو مسلمانوں نے حضرت علیؑ کی بیعت کی۔ آپؑ نے خلافت کو اقتدار یا اعزاز کے طور پر نہیں بلکہ ایک بھاری ذمہ داری سمجھ کر قبول کیا۔
نہج البلاغہ میں آپؑ فرماتے ہیں:
"اگر لوگوں کا اصرار اور اللہ کی حجت نہ ہوتی تو آپؑ خلافت قبول نہ کرتے۔
حضرت علیؑ کی خلافت کا مقصد ذاتی مفاد نہیں بلکہ اسلامی اقدار کی بحالی اور عدل کا قیام تھا۔
نظامِ عدلِ اسلامی کی بنیاد
حضرت علیؑ کی خلافت کا مرکزی اصول عدل تھا۔ آپؑ نے بیت المال کو ذاتی خزانہ نہیں بلکہ عوام کی امانت سمجھا۔ عرب و عجم، آزاد و غلام، امیر و غریب سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا گیا۔ یہی عدل بہت سے مفاد پرستوں کو ناگوار گزرا۔
مالک اشترکے نام آپؑ کا خط اسلامی طرزِ حکمرانی کا بہترین منشور ہے، جس میں رعایا کے حقوق، عدلِ اجتماعی اور انسانی وقار پر زور دیا گیا ہے۔
سادگی اور زہد
حضرت علیؑ کی ذاتی زندگی نہایت سادہ تھی۔ آپؑ خود سخت زندگی گزارتے تھے تاکہ کوئی غریب یہ نہ کہے کہ اس کا حاکم اس سے بہتر حالت میں ہےـ آپؑ اپنے لباس اور خوراک میں انتہائی احتیاط کرتے تھے، مگر دوسروں پر کبھی تنگی نہیں کرتے تھے۔
خلافت کے دوران آزمائشیں
حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران جمل، صفین اور نہروان جیسی جنگیں ہوئیں۔ یہ جنگیں اقتدار کے لیے نہیں بلکہ حق اور باطل کے درمیان تھیں۔ حضرت علیؑ نے ہمیشہ صلح اور مکالمے کو ترجیح دی، مگر جب دین خطرے میں پڑا تو حق کے دفاع کے لیے کھڑے ہوئے۔
انسانیت کے لیے علوی پیغام
حضرت علیؑ کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ لوگ یا تو دین میں تمہارے بھائی ہیں یا انسانیت میں تمہارے جیسے۔ یہ جملہ علوی فکر کی عالمگیریت کو ظاہر کرتا ہےـ
نتیجہ
حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی زندگی ولادتِ کعبہ سے لے کر نظامِ عدلِ اسلامی تک ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے. آپؑ اللہ کے منتخب امام، رسولِ اکرم کے برحق جانشین اور انسانیت کے لیے ایک کامل نمونہ ہیں۔ آپؑ کی خلافت دراصل اسلام کے حقیقی چہرے کی نمائندہ تھی، جس میں عدل، مساوات، تقویٰ اور انسان دوستی کو عملی صورت دی گئی۔
آج کا انسان، جو ظلم، ناانصافی اور اخلاقی بحران کا شکار ہے، اگر حضرت علیؑ کے افکار و کردار سے رہنمائی لے تو ایک عادل اور پرامن معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ حضرت علیؑ کی ولادت ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتی ہے کہ اللہ جب کسی کو انسانیت کی رہنمائی کے لیے منتخب کرتا ہے تو اس کی زندگی کا ہر پہلو ایک زندہ درس بن جاتا ہے۔ بلا شبہ عدلِ علوی آج بھی نجات کا راستہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔









آپ کا تبصرہ